آتش غم میں جلے‘فنا ہو گے
اشک اتنے بہے‘دریا ہو گے
مقتل میں ڈھونڈتا ہوں آثار زندگی
اندھرے میرے مقدر پہ خدا ہو گے
اٹھتی نہیں جبیں آستان یار سے
تھے بادشاہ کبھی اب گدا ہو گے
میرے دل ناداں سے خطا کیا ہوئی
کہ موسم سبھی بہار کے خفا ہو گے
ہر سانس میں تھی جن کی سحرآرزو
وہی لوگ تیری زیست سے قضا ہو گے