مجھ پہ کیا بیتی ہے یہ اُسکو بتاؤں کیسے
آتشِ سوزاں میں اوروں کو جلاؤں کیسے
اسکو یہ سوچ کے خفا رہنے دیا میں نے
وہ روٹھ کے خوش ہے تو مناؤں کیسے
ڈالی سے جدا کرکے بالوں میں سجا لیا اسنے
اپنی خوشبو کو ہواوں میں اڑاؤں کیسے
بارہا سوچا ہے یہ اب کے نہ یاد کرونگا
پھر یہ سوچتاہوں اُس کو بُھلاؤں کیسے
اس شوقِ جنون نے کہیں کا نہیں چھوڑا
دل توڑنے والوں سے اب ہاتھ ملاؤں کیسے
آئے کبھی زخموں پہ رضا دستِ شفا رکھے
ہجر کی کالی راتوں کو تنہامیں بِتاؤں کیسے