آج اس شہر میں کل نئے شہر میں بس اسی لہر میں
اڑتے پتوں کے پیچھے اڑاتا رہا شوق آوارگی
اس گلی کے بہت کم نظر لوگ تھے،فتنہ گر لوگ تھے
زخم کھاتا رہا مسکراتا رہا ، شوق آوارگی
کوئی پیغام گل تک نہ پہنچا مگر پھر بھی شام و سحر
ناز باد چمن کے اٹھاتا رہا شوق آوارگی
کوئی ہنس کے ملے غنچہ دل کھلے چاک دل کا سلے
ہر قدم پر نگاہیں بچھاتا رہا شوق آوارگی
دشمن جاں فلک ،غیر ہے یہ زمیں کوئی اپنا نہیں
خاک سارے جہاں کی اڑاتا رہا شوق آوارگی