آج بھی یاد کا مردنگ بجاکر تنہائی کچھ گا رہی ہے
نہ جانے یہ رات کہاں سجے اب شہنائی کچھ گا رہی ہے
وہ دیواروں سے تنگ آکر ساحل کو سفر لیئے نکلے
پھر کس سرَ سے ہوا نے اتارا یہ ردائی کچھ گا رہی ہے
کوئی اپنے ارمان لیکر جلواگری سے کیوں گذرا
بے رخی کے بھاپ اٹھے یہاں ہرجائی کچھ گا رہی ہے
کثیف دل نشینی کے رابطے سے بڑے دقیق ہوئے ہم
ناسائشتگی سے اٹھکر وہاں دانائی کچھ گا رہی ہے
سارے راستے پتھر پتھر، پاؤں کی انگلیوں کو کیا معلوم
عذاب بھری ہے منزل ہماری خفائی کچھ گا رہی ہے