میرے وجود سے زیادہ ہیں غم میرے
غم پھر بھی لگتے ہیں کم میرے
لوگ خوش سمجھتے ہیں مجھے مسکراتا دیکھ کر
دیدے اندر سے رہتے ہیں نم میرے
کانٹے کی چھبن کا بھی لوگ لیتے ہیں بدلہ
کسی نے گنے نہیں کبھی زخم میرے
کیا ہوا کہ آج تنہا ہوں میں
کبھی وہ بھی بیٹھے تھے باہم میرے
نہ بہار ہے پاس نہ خزاں کا وجود
وہ ہر جائی چرا لے گیا موسم میرے
اک با اعتبار شخص ہی جب دے گیا دغا
اب کون رکھے گا یہاں بھرم میرے
پھر پر خار راہوں پہ چلنے کی سزا نہ دو
پاؤں میں چھا لے ہیں ابھی نرم میرے
منزل وصل قر یب تھی کہ جواب دے گئے
امتیاز اپنی جیت کو پا نے سے پہلے قدم میرے