آج تو موت کی دعا کر کے میں بہت رویا
دوبارہ آج خدا سے گلہ کر کے بہت رویا
کیوں نہ لکھ سکا تو اَس کو تقدیر میں میری
یہ ایک خیال سوچ کر پھر میں بہت رویا
ایک حرف تسلی کا ایک حرف محبت کا
خود اپنے لیے اَس نے لکھا تو بہت رویا
پہلے بھی شکاتیوں پر شکایت کی تھی اَس نے
لیکن وہ میرے ہاتھوں ہارا تو بہت رویا
وہ رویا تو بہت پر مجھ سے منہ موڑ کے بہت رویا
بہت مجبور ہے شاہد وہ جو دل توڑ کے بہت رویا