آج پھر اس نے فرمائش کی ہے تازہ غزل کی
کہ پھر سے اوڑھ لوں میں لفظوں کی چادر
کروں بیاں اس کا تازہ پہناوہ
دھنک کے سات رنگوں سے بنوں لفظوں کی مالا
اور اپنے اندر کے دکھوں کا موسم بھول جاؤں
گلابوں کو آنکھوں کی لالی سے دور دیکھوں
ہجر سے منسلک دل کے گوشے فراموش کر دوں
صدائے ماضی ایک پل کو خاموش کر دوں
تخیل میں چاہتوں کا جادو پھر سے جگاؤں
میں اس سے منسلک سارے بیتے صدمے بھلاؤں
کہوں کچھ ایسا کہ سب کو حیران کردوں
میں اپنے قلم سے اس پتھر کو “جان“کردوں
مگر اس کو یہ جان کر آفسوس ہو گا
“میرے اندر کا شاعر مر چکا ہے“