آج پھر تازہ ہوئے ہیں زخم دل کے
آج پھر وہ خواب میں آیا ہے
وہ چہرہ، وہ زلف، وہ باتیں ، وہ ہنسی
آج پھر سب کچھ ذہن میں اتر آیا ہے
اشکوں کی بارش میں بھیگی ہیں آنکھیں
آج پھر اس کی یاد نے دل کو تڑپایا ہے
نہ جانے کیوں تجھے بھول نہ پائے ہم
دنیا کی رونقوں میں تو ہی یاد آیا ہے
آج پھر جی بھر کے روئے ہیں عمیر
آج پھر اس کا نام لبوں پر آیا ہے