آج پھر تیری یاد آئی
بارش کو دیکھ کر
دل پر زور نہ رہا
اپنی بے بسی دیکھ کر
روۓ اس قدر تیری یاد میں
کہ بارش بھی تھم گیی
میرے اشکوں کی بارش دیکھ کر
آج جب بارش ہوئی یہ بھی خیال آیا
کیوں نہ اس بادل کو رازدان بنا لوں میں
جو بھی مجھ پر گزری ہے اس کو سب سناوں میں
تم سے جو کَہنا ہے اس کو سب بتاوں میں
پھر تمھارے دل پر آج ہی برس جاۓ