آج پھر مجھے وہی زمانہ یاد آیا
پھر وہ رونے کا بہانہ یاد آیا
کچھ اور نہ تھا چرچے میرے عام تھے
وحشی کو زنجیر دیکھا عشق کا زمانہ یاد آیا
وہ دن تھے کہ رہے ترستے دید کے لیے
پھر وہی گلی میں آنا جانا یاد آیا
زندگی رہنے دے تیرے داغوں سے سرشار ہوں میں
یادوں کی چس سے کیا کیا جانے نہ یاد آیا
ہنس کے پھر وہی شیشہ کہنے لگا قلزم
دیکھ کے چکنا چور تجھے مجھے آئینہ خانہ یاد آیا