کہیں ٹک کر نہیں رہتا وہ ہواؤں کی طرح
بستی بستی گھومتا رہتا ہے گھٹاؤں کی طرح
میں نے جس شخص کیلئے رکھی ہیں وفائیں اپنی
وہ ہربار مجھے ملتا ہے بے وفاؤں کی طرح
اک تمہیں میری چاہت کا یقیں نہیں ہے ورنہ
میں تو تمہیں چاہتا ہوں مسجدوں، کلیساؤں کی طرح
میں تمہیں ملتا نہیں تمہاری بے رخی کے باعث
ورنہ تمہارا نام زباں پہ رہتا ہے دعاؤں کی طرح
آج پھر چراغ جلا نہیں اس کے گھر کے کونے میں
آج پھر مجھے یہ شب ملی ہے سزاؤں کی طرح
امتیاز ممکن تھا میں اسے بھلا دیتا لیکن
وہ میری ذات سے جڑا ہے ہتھیلی کی ریکھاؤں کی طرح