آج کی رات کٹے گی کیسے
دکھوں نے ڈیرا ڈالا ہے
تاریکی نے اپنا جوبن دکھایا ہے
اسی شکست سے خوف آنے لگا ہے
ہر سو ناکامی نے جو منہ دکھایا ہے
نیند آنے کا نام ہی نہیں لیتی
سکون اک زمانےکا ہم سے روٹھا ہے
آج کی رات کٹے گی کیسے
اک مانوس سی آواز جو اکثر میرے کانوں میں پڑتی تھی
باعث راحت بنتی تھی
میری آنکھوں میں نیند آنے کا اک بہانہ بنتی تھی
آج وہ آواز کہیں گم ہو گئی ہے
مجھ سے روٹھ گئی ہے
اب نیند آئے تو کیسے آئے
کان اس آواز کے عادی ہوگئے ہیں
آنکھیں اس کی منتظر رہتی ہیں
وہ آواز کہاں کھو گئی ہے
میری راتیں اب کٹیں گی تو کیسےکٹیں گی
تاریکوں کے ان مٹ سائے میں ہی کٹیں گی
شاید کہ بعد میں عادی ہو جاؤں ان سب باتوں کا
مگر جاناں بس یہ بتا دو کہ آج کی رات کٹے گی کیسے