آج یاد رو رو کےتیری ستاتی رہی
آگ جدائی کی دل کو رولاتی رہی
آندھیاں جب گُزرتی رہی باغ سے
شوقِ غزل اپنے سر کو جُھکتی رہی
اپنی محبت کی ناکامیاں کیا کہوں
خواہشِ عشق ہر قدم مجھے رولاتی رہی
وہ دوسروں کو ہنس ہنس کے ملتے رہے
میری ہی بد قسمتی اشک بہاتی رہی
ہم وفا جن سے کرتے رہے عمر بھر تک
اور ہم پر ہی اُن کی جفا مسکراتی رہی
شاہد قصور میری محبت کا ہے مسعود
جب سب سہہ کر بھی اُنہیں چاہتی رہی