ڈھل گئی شام ہے آخر
وہی بادہ و جام ہے آخر
پھر تیری یاد ہے پیش نظر
پھر تو ہی ہمکلام ہے آخر
پھر پلائے گئے ہیں جام و سبو
پھر رہا تشنہ کام ہے آخر
پھر وہی زیست کا ہے لمبا شفر
پھر وہی اختتام ہے آخر
شکوہ لب پر نہیں لاتے
کچھ تیرا احترام ہے آحر