چھپ چھپ کے دیکھتا کیا ہے
اے دوست بتا تماشا کیا ہے
تیرے ساتھ وفاوں پہ وفائیں کیں
میرے ہمدم پھر یہ گلہ کیا ہے
مداوتیں صد ہزار کی ناکام رہے
آخر اِن دردوں کی دوا کیا ہے
یہ تو مرا عشق ہے اے ماہِ جبیں
تیرے پا کو بوسہ دینے میں بُرا کیا ہے
تیرے،ساتھ نبھانے کے وعدے کہاں گئے
او وعدہ شکن چھوڑنے کا ماجرا کیا ہے
مجھ سے جدا ہوئے اک مدّت گزر گئی
اب بھی لوٹ آوَ ابھی بگڑا کیا ہے
اگر مجھ سے محبت نہیں کرتے جہاں
پھر یہ نینوں میں شکیبا کیا ہے