آخری کوئی پل نہیں ہوتا
ہر کسی کا بدل نہیں ہوتا
گردشِ فکر اک معمہ ہے
جو کسی طور حل نہیں ہوتا
جن درختوں کا ہوتا ہے سایہ
اُن کی قسمت میں پھل نہیں ہوتا
فکرِامرُوز ہو جنہیں ہر پل
اُن کے ہاتھوں میں کل نہیں ہوتا
سحر انگیز حرف ہوتے نہیں
تُو! جو جانِ غزل نہیں ہوتا
ایک سا پانی ساری جھیلوں میں
ہر کسی میں کنول نہیں ہوتا
زندگی نے سکھایا ہے عاشی
حرف کوئی اٹل نہیں ہوتا