اک جرم کی سزا پائی ہے بہت
طوالت عمر میں نے پائی ہے بہت
گبھرا کے چھوڑ دیا صبر کا دامن ہاتھ سے
بے صبری انساں نے پائی ہے بہت
ملاقات تو ہو گی اس دن جو وعدہ ہے
یارب تیری فرقت کی تنہائی ہے بہت
دنیا تیری دل کو اچھی لگی مگر
اس دشت امتحان کی پنہائی ہے بہت
طلوع بھی دیکھتے ہیں غروب بھی
صبح و شام کی قید سے زندگی گبھرائی ہے بہت
مکاں اور لامکاں میں جانے کیا فاصلہ ہے
کہ میں دیکھتا نہیں مگر تو پاس ہے بہت
میرے دفتر عمل میں سب سیاہی ہے
نور ہے تو تیرے پاس روشنی ہے بہت
مجھے معلوم ہے کہ آخر تو معاف کردے گا
اسی بات کا میرے دل کو سکوں ہے بہت