عمر بھر کرتے رہے ہیں آرزو درختوں کی
دشت و صحرا کے سفر میں آرزو درختوں کی
خواہشوں کی تیز ہوا جانے کب سے کرتی ہے
ہجر کے بیاباں میں آرزو درختوں کی
ٹوٹی پھوٹی بستیوں میں جانے کیوں لئے پھرتی ہے
اک تنہا پرندے کو آرزو درختوں کی
کتنی صدیوں سے یوں ہی سرنگوں سی بیٹھی ہے
دھوپ کے دریچوں میں آرزو درختوں کی