آرزو سے ترک ہوکر سبھی قافلے راہ میں چھوڑدیئے

Poet: Santosh Gomani By: Santosh Gomani, Mithi

آرزو سے ترک ہوکر سبھی قافلے راہ میں چھوڑ دیئے
اور اپنی صدا کے سجدے وہ عبادت گاہ میں چھوڑ دیئے

کبھی پستی کبھی محرومی نے بڑا خفیف کیا ہے آج تک
کچھ ذلت گذر گئی کچھ درد اپنی آہ میں چھوڑ دیئے

عمیق ہیں مھربانیاں جب بھی حماقت ہوئی ان سے
سمجھ کر شفقتی سلسلے تو انہوں کو گناہ میں چھوڑ دیئے

امید ہی نہیں کہ کوئی میری ضیافت میں آئے گا
امکان تو سبھی تھے ایسے اور الوداع میں چھوڑ دیئے

رفیقوں سے اک بار دل کے احاطے مل گئے تھے مجھے
سارے جرم سنگین تب سے پناہ میں چھوڑ دیئے

تفصیر وار ہے دنیا بے ریا رہوں بھی کیسے سنتوش
اب تو یہ اصول دستور اصلاح میں چھوڑ دیئے
 

Rate it:
Views: 390
19 Jan, 2011