ذہن جس شخص میں اٹکا ہے
وہ درد مرا کب سمجھا ہے
حوادث کے تیز تھپیڑوں میں
ٹمٹماتا میری آرزو کا دیا ہے
جس نے درد آشنائی سکھائی
وہ کہیں پردیس میں بسا ہے
ہم نے ذہن میں دراڑیں پڑتی دیکھیں
روح کو بھی چیختے سنا ہے
آنسو گر آئیں تو گرنے نہ پائیں
آنکھوں کا یہی تو اک گہنا ہے
جذبات کے نگینوں کو سنبھالنا چاہوں
انہیں کب لڑی میں پرونا ہے
زندگی میں نہ کچھ گر ملا ناصر
یہ نہ ملنا بھی تو اک ملنا ہے