صحراء زندگی میں آزمایا گیا ھوں میں
تب جا کہ اس مقام تک لایا گیا ھوں میں
چہرے پہ ان کے کیا ھے ان کو بھی ھو خبر
آئینہ بنا کہ راہ میں سجایا گیا ھوں میں
دفنانا ہی مقصود تھا گر مجھ کو دوستو
پھولوں سے کیونکر پھر سجایا گیا ھوں میں
وہی لوگ آ ج میری قبر چومنے لگے
جن سے کہ کئ بار ٹھکرایا گیا ھوں میں