اپنے قاتل کا اعتبار، یار، کیا کرتا ؟
جس نے مارا اُسی سے پیار، یار، کیا کرتا ؟
آخری سانس ہی تو تھی، جو روک رکھی تھی۔۔۔
اب اُس کا اور انتظار، یار، کیا کرتا ؟
زندہ نہ رہ سکا مزید اس خیال سے کہ۔۔۔۔
اپنے سائے نے کیا وار، یار، کیا کرتا ؟
کچھ غلط فہمیوں نے رشتے کو کمزور کیا۔۔۔
کچھ وہ خود بھی تھا بیزار، یار، کیا کرتا ؟
کچھ رقیبوں کی لگائی بجھائی کا تھا دھواں۔۔۔
کچھ عزیزوں کا تھا کردار، یار، کیا کرتا ؟
“طلحہ“ کو یاروں کی یاری نے ہی برباد کیا۔۔۔
کہتا وہ “یار“ کس کو ؟ ، یار، یار، کیا کرتا ؟