منزل ملتے ملتے چھوٹ گئے
مسافر رلتے رہےتنہا تنہا
خواب بنتے بنتے آنکھ تھک گئی
ہاتھوں سے جگنوں اڑتے گئے
پھول یوں ہی مرجھاتے گئے
ویران ویران راہیں بوجھل ہیں قدم
چلتے چلتے پاؤں زخمی زخمی
اک پرندہ پنجرے میں بے جان
آنکھوں میں اداسی لب سیے
ہر اک کو تکتا ہے آس سے
اب تو کوئی آئے مہرباں
جو اس بند قفل کو اس طرح کھولے
پرواز کرے شاھین آسمان کے وسعتوں میں
مل جائے منزل اسے دنیا کی خوبصورت نگری میں