آنکھ سے نکل کر آنسو کبھی تیرے دامن پے گرا ہو گا
جب یاد بن کر درد میرا حد سے گزر گیا ہو گا
تو بھلے لاکھ چھپائے دنیا سے ان بہتے آنسوؤں کو
ضرور کوئی تجھ سے سبب پوچھنے والا مل گیا ہو گا
تو پھر بھی نا بتائے ابنا حال دل کسی کو بھی
پھر دبا کے بات کو جانے تو کیسے بدل گیا ہو گا
یونہی گم ہو کر پھر اپنی ہی دنیا میں
تو اپنے ہی سائے سے ڈر گیا ہو گا
یاد تو آتی ہو گی میری تجھے وقت بے وقت
پر اب تو میرا تصور بھی دھندلا گیا ہو گا
یہ تو کھیل ھیں نصیب کے تنویر
جو تجھے ملا اسے بھی مل گیا ہوگا