رخصت ہوا تو آنکھ ملا کر نہیں گیا
وہ کیوں گیا ہے یہ بھی بتا کر نہیں گیا
وہ یوں گیا کہ بادِ صبا یاد آ گئی
احساس تک بھی ہم کو دِلا کر نہیں گیا
یوں لگ رہا ہے جیسے ابھی لوٹ آئے گا
جاتے ہوئے چراغ بُجا کر نہیں گیا
بس اک لکیر کھینچ گیا در میں
دیوار رستے میں بنا کر نہیں گیا
رہنے دیا نہ اُس نے کسی کام کا مجھے
اور خاک میں بھی مُجھ کو ملا کر نہیں گیا
شاید وہ مل ہی جائے مگر جستجو ہے شرط۔
وہ نقشِ پا تو اپنے مٹا کر نہیں گیا