آنکھ میں رَتجگا تو ہے ہی نہیں
ہجر کا تذکرہ تو ہے ہی نہیں
مِل گیا تُو ، مِل گیا سب کچھ
اور کچھ مانگنا تو ہے ہی نہیں
ایک ہی راستہ نجات کا ہے
دوسرا راستہ تو ہے ہی نہیں
عکس مجھ کو دِکھا رہا ہے کون
سامنے آئینہ تو ہے ہی نہیں
معذرت کر نہ بے وفا کہہ کر
مجھے اَب ماننا تو ہے ہی نہیں
یہ مرض عشق کا مرض ہے میاں
اِس مرض کی دوا تو ہے ہی نہیں
آپ اپنوں میں اب نہیں شامل
آپ سے اَب گلہ تو ہے ہی نہیں