آنکھ میں کوئی خواب رہنے دے
شاخ دل پر ’’گلاب رہنے دے‘‘
زرد رت ہے یہ بیت جائے گی
بس ہوا ہمرکاب رہنے دے
کوئی بجھنے لگا ہے تارہ اب
روشنی کا نصاب رہنے دے
سب پرندے ہیں کیوں پریشاں سے
موسموں کا حساب رہنے دے
میرے ساقی کہاں پہ گم ہے تو
جام میں کچھ شراب رہنے دے
میں نے اڑنا ہے آسمانوں پر
یہ پرندے،سحاب رہنے دے
پھول تو بے حساب ہیں جاناں
میں سجاؤں کتاب رہنے دے