آنکھوں دیکھ کر پیا ہے زہر عمر بھر
رقیبوں نے سمجھایا پھر بتلایا بھی
رنگ با انواع سے بد است وہ لڑکی
ہر اک آشنا اسکا من دیده ام بھی
کیوں قاثر ہے شناخت سے میرا قلب
تمام شب غیر کی بانہوں اسے دیکھا بھی
رابط دل ہے کہ ابھی تک قائم تجھ سے
زبان هر فرد سے تیرا کردار سنا بھی
مہنگے ملابس میں کب تک چھپاو گے باطن
ایسے ہونے سے أفضل ہے تیرا نہ ہونا بھی
تیری خصلت میں تغییر جھوٹی ہے بات
بے فائدہ ہے هر لحظه تم پہ مرنا بھی
بدون زمان ایسا کہ تجھے یاد نہ کیا ہو
بدن چور زخموں سے جینا ہے اجباری بھی
کب تک رکھوں گا سلجھا کر تیری تصویریں
لازم ہے اک روز دنیا سے میرا بچھڑ بھی
خاک ڈالو گے ہوا دنیا سے من بلند شدم
جانیں گی تیرا حال سیلیاں چطوری بھی
کبھی مسکراو گے کبھی خوب رویا گے تم
گاہ بگاہ لیا کرو گے نفیس میرا نام بھی !!
آنکھوں دیکھ کر پیا ہے زہر عمر بھر
رقیبوں نے سمجھایا پھر بتلایا بھی