سودا مری وفاؤں کا مہنگا پڑا مجھے
سائے کے ساتھ ساتھ ہی چلنا پڑا مجھے
بڑھتی رہیں جو پیار کی منزل میں دوریاں
اپنا وجود خاک ہی کرنا پڑا مجھے
ملنا میں چاہتی تھی کسی اور سے مگر
اک بے وفا کے ساتھ ہی ملنا پڑا مجھے
زندہ تھے یہاں چار سو اس زندگی کے رنگ
مردہ ہوئے تو ساتھ ہی مرنا پڑا مجھے
آنکھوں سے آج وصل کا ہر خواب توڑ کر
قرضہ تری جدائی کا بھرنا پڑا مجھے
کچھ کہہ رہی تھی رات کوبجھتے دیئے کی لو
وشمہ یقین بات کا کرنا پڑا مجھے