آنکھوں سے مری آنسو ہر آن نکلتے ہیں
کیوں میری محبت کے ارمان نکلتے ہیں
جب شعروں کی مالا میں سوچوں سے پروتی ہوں
تب جا کے کہیں دل سے دیوا ن نکلتے ہیں
جب آئینے میں صورت دھندلی سی دکھائی دے
پھر دھول کی وادی سے انسان نکلتے ہیں
اس گھر میں جفاؤں کی بلاؤں کا جو ڈیرا ہے
چل پڑھتے ہوئے دل سے قرآن نکلتے ہیں
کو ششں تو بہت کی ہے پھولوں سے سجاؤں میں
پر لے کے وہ خالی ہی گلدان نکلتے ہیں
وہ بھول چکا سب کچھ پھر بھی یہ فریضہ ہے
ہاں ،ملنے کے کچھ نہ کچھ امکان نکلتے ہیں
ہونٹوں پہ درددوں سے مسکان سجا وشمہ
جب درد کریں اکثر شیطان نکلتے ہیں