آنکھوں میں تیرے سراب نہیں رہے تجھے پانے کے اب خواب نہیں رہے جن کا تیری ذات ہی عنوان تھی میری کتاب میں وہ باب نہیں رہے تیرے جانے کہ بعد وہ مرجھا گے دل کے غنچے شاداب نہیں رہے