آنکھوں کی نمی درد کو ظاہر کر دیتی ہے
لبوں پے مسکان سجانے سے کچھ نہیں ہوتا
دل کی وادی تو ویران پڑ گئی ہیں لکی
اب گھر کو سجانے سے کچھ نہیں ہوتا
رات دیر تک تیری بات چلتی رہی دل سے
اب آنکھوں کے خواب مٹانے سے کچھ نہیں ہوتا
کس سوچ میں ڈال دیا ُاس شخص نے مجھے
کہ وفا نبھانے سے بھی کچھ نہیں ہوتا
ُاس کے بول ہیں - یا پھر کسی پتھر پر لکیر
کہ سجدوں میں اشک بہانے سے بھی کچھ نہیں ہوتا
کر رہا ہیں دکھوایا وہ نفرت کا ہم سے
جاناں ! اب عدواتوں سے کچھ نہیں ہوتا
مٹا دیا ُاس نے پل میں ہی میرا نام
مٹی اگر خاک ہو جائے تو کچھ نہیں ہوتا