یہ راہیں الفت ہیں سنبھل کر چلو
یہاں پر اکثر ساتھ چھوٹ جاتے ہیں
جو ہوتے ہیں دل میں بہت اپنے
ہاں وہی لوگ منہ موڑ جاتے ہیں
زمانے کی ٹھوکروں نے کر دیا بیان
پتھر یوں ہی تو نہیں گول ہو جاتے ہیں
میرے مسیحا کچھ تو خیال کیا ہوتا
آنکھوں کے آنسو بھی بہت کچھ بول جاتے ہیں
اک کھیر کی پلیٹ ملی ہے درگاہ سے
ورنہ کچھ ہاتھ تو خالی بھی لوٹ جاتے ہیں
میرے خوابوں میں اب آنا بہت ہیں ُاس کا
جیسے پنچھی اپنا راستہ بھول جاتے ہیں