کہیں بھی کوئی نشانی نظر نہیں آتی
کسی کو میری کہانی نظر نہیں آتی
لہریں پرسکوں دکھائی دینے لگی ہیں
سمندروں میں روانی نظر نہیں آتی
پھول پات نہ اشجار نہ کوئی طائر
کہیں چمن میں جوانی نظر نہیں آتی
یہ سماں حیرت آفریں ہونا چاہئیے مگر
کسی چہرے پہ حیرانی نظر نہیں آتی
آنکھیں اداس دل بجھا سا رہنے لگا
امیدوں کی فراوانی نظر نہیں آتی
سب کی نظر میں کیسے انجان ہو گئی
مجھے نظر جو انجانی نظر نہیں آتی
تمہارے لئے غیر ہے غیر تو غیر سہی
مگر مجھے وہ بیگانی نظر نہیں آتی
کل جسے میں نے یہاں دیکھا تھا
آج مجھے وہ دیوانی نظر نہیں آتی
عظمٰی تیرے چہرے پہ رقصاں شوخیاں
بظاہر تو پریشانی نظر نہیں آتی