آنکھیں بھی وہی ہیں تو دریچہ بھی وہی ہے
اور سوچ کے آنگن میں اترتا بھی وہی ہے
جس نے مرے جذبوں کی صداقت کو نہ جانا
اب میری رفاقت کو ترستا بھی وہی ہے
اس دل کے خرابے سے گزر کس کا ہوا ہے
آنکھیں بھی وہی ،ہونٹ بھی، لہجہ بھی وہی ہے
جو کچھ بھی کہا تھا میری تنہائی نے تجھ سے
اس شہر کی دیوار پہ لکھا بھی وہی ہے
وہ جس نے دیے مجھ کو محبت کے خزانے
بادل کی طرح آنکھ سے برسا بھی وہی ہے