آنکھیں شاعری
Poet: کنول ملک By: محمد رضوان, Quettaروبرو پھر سے اس کی آنکھیں تھیں
پھر سے مشکل میں یہ مرا دل تھا
اس سے اظہار کر سکی نہ میں
جو مری شاعری کا حاصل تھا
جو مسیحا تھا میری بستی میں
اک وہی شخص میرا قاتل تھا
اس کی آنکھوں کا دوش تھا سارا
روح چھلنی تھی دل بھی گھائل تھا
اس کو فرصت نہیں تھی سننے کی
حال کہنا بھی اس سے مشکل تھا
نہ میں بولی نہ اس نے پوچھا کچھ
میں بھی ضدی تھی وہ بھی پاگل تھا
دل پہ رکھتا وہ ہاتھ سن لیتا
وہ مری دھڑکنوں میں شامل تھا
نیم شب میں تھا وہ دعاؤں میں
تر بہ تر آنسوؤں میں آنچل تھا
میری آنکھیں بھی پڑھ سکا نہ وہ
ہائے وہ شخص کتنا پاگل تھا
اس کے ہاتھوں میں تھی شفا لیکن
درد میرا ہی اب مسلسل تھا
پھر مرا مسئلہ ہی ایسا تھا
میری مشکل کا ایک ہی حل تھا
بھول جاتی اسے کنولؔ لیکن
بھول جانا بھی اس کو مشکل تھا
More Sad Poetry






