لیتے ہیں دل پہ جب تیرا، غم کبھی کبھار
آنکھیں ہو جاتی ہیں، نم کبھی کبھار
پھر ہو جاتی ہے اپنی،اک عجب ہی حالت
پھر گھٹنے سا لگتا ہے، اپنا دم کبھی کبھار
دِکھنے میں کبھی کوئی نہیں، بیوفا ہوگا
مت کرنا اعتبار ایسا، جو باعثِ سزا ہو گا
بُرا نہیں عاشقی میں اُٹھانا، قدم کبھی کبھار
جان بوجھ کے تو نہیں خود کو، ہوں بیوفا کہتا
یہ دردِ رسوائی ، جانے کیسے ہوں سہتا
رکھنا پڑتا ہے کچھ لوگوں کا، بھرم کبھی کبھار
میں تو یہی کہوں گا، اجنبی رہنا
کسی کے خود بننا، نہ کسی کو اپنا کہنا
کر دیتے ہیںزخم گہرا، مرہم کبھی کبھار
روتا ہوں تیری یاد میں ، شدت سے جس رات
بادل بھی برابر میں، برساتے ہیں برسات
بانٹتا ہے دُکھ حاوی کا، موسم کبھی کبھار