بے کسی اچھی نہیں ، بے بسی اچھی نہیں
جو جئیں گھٹ گھٹ کے ہم وہ زندگی اچھی نہیں
حال دل کیجے بیاں پر تھوڑی خودداری کے ساتھ
عشق کے اظہار میں بے چارگی اچھی نہیں
صاف گوئ سے نہ ہو تیر ے تکبر کا گماں
حق بھی کہنے میں سدا برجستگی اچھی نہیں
نفس پر یہ جبر بے جا ہے قنا عت تو نہیں
سامنے دریا ہو تو تشنہ لبی اچھی نہیں
انتہا ئے عشق ہے سب کچھ بھلا دینا مگر
جو بھلا دے رب کو ایسی عاشقی اچھی نہیں
اس کے آگے سر جھکا جو سب کا پالن ہار ہے
ہر کس و ناکس کے در پر بندگی اچھی نہیں
دے نہ دیں اک دن تمھیں بھی لوگ مجنوں کا خطاب
کویے یاراں میں ‘حسن ‘ آوارگی اچھی نہیں