آگے کا سفر دیکھ کے ڈر گیا ہے وہ
اس واسطے قا فلے سے بچھڑ گیا ہے وہ
موسم کی سختیاں میں جھیل نہیں سکتا
یہ کہہ کے راستے میں اُتر گیا ہے وہ
واپسی کا نہ سوال ہو گا یہ طے ہوا تھا
اب اپنی ہی بات سے مُکر گیا ہے وہ
منزل کا کُچھ پتہ نہیں رستوں کے ساتھ
راہرو بھی بد گمان کر گیا ہے وہ
پلٹا ہے جس ادا سے وہ تیور ڈال کر
لگتا نہیں کے سیدھا گھر گیا ہے وہ
بس مختصر یہ کے اک انا کی آڑ میں
لہجے میں کتنی نفرتیں بھر گیا ہے وہ
اُس کے خطوں میں ختم ہو گیا ہوں بابر
اب میرے کاغذوں میں بھی مر گیا ہے وہ