آہ بھرتی ہیں شب و روز یہ آہیں اپنی
چین سے اب تو گزرتی نہیں راتیں اپنی
سرخ ہیں رات کو کیا سوئے نہیں چین سے تم
آئنہ دیکھ کے دیکھو ذرا آنکھیں اپنی
غم کا مارا ہوں کلیجے سے لگالے مجھ کو
آج پھیلادے مرے واسطے باہیں اپنی
پہلے چھپ چھپ کے بھی ہنس بول لیا کرتے تھے
اب تو میسج پہ بھی ہوتی نہیں باتیں اپنی
چاند بدلی سے نکل آیا ہمیں ایسا لگا
اس نے باندھی جو ربر بینڈ سے زلفیں اپنی
جب سے دل توڑ گئ ہے وہ غضنفر غضنی
تب سے دن رات برستی ہیں یہ آنکھیں اپنی