آہ و فریاد زباں پہ آئے کیسے
تیری یاد دل سے جائے کیسے
اک یہی دولت ہے پاس میرے
تمہی کہو دل یہ گنوائے کیسے
تم تو گئےمُسکرا کے یونہی
ایسے دیکھا،جیسے دیکھا ہی نہیں
ستم تو یہ ہے ، پھر پوچھتے ہو
من کو یہ روگ لگائے کیسے
میرے آسماں کے چاند ہو تم
کر گئے ہو میری آنکھ کو نم
جانے والے تو چلے جاتے ہیں
دل کو یہ کوئی سمجھائے کیسے
ہو مبارک تجھے نئی منزلیں
نئی راہوں پہ نئے پھول کِھلیں
جب دعایئں ہماری ساتھ چلیں
کوئی خزاںتجھ کو ستائے کیسے
غم کی پرچھائی سدا دور رہے
تیری دل میں وفا کا نور رہے
آنسو میرے تو تھمے ہیں ابھی
نہ پوچھ یہ صدمے اٹھائےکیسے
عمر بھر کا قصّہ تمام یہ ہے
رضاجی میراخیال ِ خام یہ ہے
بِیچ بھنور میں چھوڑنے والا
اب تجھ سے ہاتھ ملائے کیسے