آیا تھا زندگی میں وہ آ کر چلا گیا
وہ شخص میرا آشیاں گرا کر چلا گیا
کہتا تھا خوشیاں بیچ کر خریدوں گا تیرے غم
عمر بھر کا غم میری زندگی کو لگا کر چلا گیا
کبھی جو لکھتا تھا ہواوُں میں وہ میرا نام
اب اپنے دل سے میرا نقش مٹا کر چلا گیا
دنیا کی رونقوں میں کبھی جو میرا ہمسفر رہا
صحراوں کے راستے پر مجھے لگا کر چلا گیا
لاتا تھا چمن سے چُن کے میرے لیے وہ پھول
اب کانٹے میرے راستے میں بچھا کر چلا گیا
وہ تو بیچ کر میری ہی وفاوُں کو سر عام
غیروں میں اپنی قیمت بڑھا کر چلا گیا
اِس کے گھر میں رہیں گے چراغوں کے جگر کا خون
میری ہی زندگی کے چراغ جو بجھا کر چلا گیا
سوچا تھا سنائیں گے اِسے داستانِ دل مسعود
وہ میری ہی زندگی کا افسانہ سنا کر چلا گیا