آیک اور غزل لکھنے لگا ہوں
سچ جو ہے آب یاد کرنے لگا ہوں
تیرے عشق کی دیوانگی میں
آب روز عیدیں منانے لگا ہوں
ایک واقع جو کبھی ہوا ہی نہ تھا
اسے کو آج کل سوچنے لگا ہوں
ہم ہیں آوارہ اور بیزار اس قدر کہ
آب گھر کو ہی مقدر سمجھنے لگا ہوں
وہ تیرا روز مرہ میرے حال کا پوچھنا
یقین کیجیے آب اپنا حال دیکھنے لگا ہوں
اس روز، ہاں اس روز کی توسیع محبت
تیرے ان الفاظ کو آب پرکھنے لگا ہوں
حال دل ہوا اب کچھ ایسا کہ بس
خود میں ہی تجھے تلاش کرنے لگا ہوں
اس احمقانہ میں کہ تم کہیں کھو نہ جاؤ
تجھے اب تجھ سے چھیننے لگا ہوں
لکھ رہا آج کل کے حالات پر سفیر
پس اب سے حجر کو آزمانے لگا ہوں