أٸینہِ فریب ہم نے خود کو ، دِکھا رکھا تھا
تری سرکشی کو بھی ہنسی میں ، اُڑا رکھا تھا
خلقتِ عام میں تو تم پہلے ہی سے تھے رسوا جاناں
وہ تو ہم نے ہی تمہیں سر پہ ، بٹھا رکھا تھا
تم تو پہلے ہی کر چکے تھے ترکِ تعلق کا قصد
ہماری صَرف نظری نے ہی یہ رشتہ ، بچا رکھا تھا
اور کچھ یوں بھی ممکن نہ تھا اس رشتے کو دوام
دل ہی دل تم نے ہمیں نظروں سے ، گرا رکھا تھا
اخلاق دیکھو تو زرا اس مزاجِ وقت کی ظلمت
ہے اب مرتبوں کا فرق کبھی ایک ، بنا رکھا تھا