أگ نفرت کی ، لگا دی جاۓ
بستی امن کی ، جلا دی جاۓ
ساکنانِ شہر بڑے أرام سے ہیں
پھر انکے زخموں کو ، ہوا دی جاۓ
جو بات کر سکتی ہو فتنہ پیدا
وہ بات کانوں کو ، سُنا دی جاۓ
بہا کر خون کا اک دریا
ندی أنسوٶں کی ، بہا دی جاۓ
وقتِ ماتم قریب ہی ہے
صفِ ماتم ، بچھا دی جاۓ
نعرہِ عصبیت میں وہ گونج پیدا کر
کہ اُلفت دِلوں سے ، بھلا دی جاۓ
انسانیت کسی دل میں اُمنڈ أۓ تو
لَوری مصلحت کی دےکر ، سُلا دی جاۓ
سرِ راہ قتل کرنے سے پہلے
خطا ٕ مجھ کو میری ، بتا دی جاۓ
صحیح غلط کی تفریق یہاں محال ہے اخلاق
بہتر ہے جان اپنی ہی ، گنوا دی جاۓ