اہل دل اہل نظر سب چپ ہیں
بول سکتے ہیں مگر سب چپ ہیں
ایک طوفاں ہے سمندر میں مگر
ہیں صدف میں جو گہر سب چپ ہیں
جا چکے گاتے پرندے کب کے
دشت میں ہیں جو شجر سب چپ ہیں
کیسے آیا کوئی سیلاب بلا
شہر مین اہل خبر سب چپ ہیں
جانے کیا کہہ کے گئی ہے شبنم
پھول با دیدہء تر سب چپ ہیں
دور تک بھی نہیں منزل کا نشان
یوں سر رہگزر سب چپ ہیں
آشنا پوچھنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں
ہے سبب کوئی اگر سب چپ ہیں