ا یک دُ وجے سے نجانے لوگ کیوں کٹنے لگے ؟
دِل تو پہلے بٹ چکے تھے گھر بھی اب بٹنے لگے
کویٔ پرُسے کے لیۓ آۓ تو آ خر کِس لیۓ ؟
اپنی چھریوں سے جب اپنے ہی گلے کٹنے لگے
کچھ بد لنا چا ہیۓ ا ب تو نصابِ زندگی
لوگ کیوں بھولے ہوۓ اسباق پھر رٹنے لگے ؟
دِل کی دنیا میں کچھ ایسا اِنقلاب آنے لگا
غم کے بادل اِ ک ذرا سی دیر میں چھٹنے لگے
سن کے میری داستاں گویا فضا تھم سی گییٔ
پتھروں کے دِل بھی جیسے درد سے پھٹنے لگے
جب سے سچایٔ کا پرچم ہم نے تھاما ہاتھ میں
خود بخود لوگوں کے دِل ہم سے پرے ہٹنے لگے
اور عذراؔ کب تلک بیٹھے رہیں گے صحن میں
اب تو پیڑوں کے بھی ساۓ دم بدم گھٹنے لگے