اب تو اُسے میری ہر بات بُری لگتی ہے
اب کہ میں نے بھی یہ سوچ لیا ہے
اِس بار یہ ساون اندر ہی برسے گا
خزاں زدہ ہر خشک پتہ
اِک اِک بُوند کو ترسے گا
اُسے کیا معلوم
کب اُس کے نازک پاؤں تلے
کوئی آرزو کُچلی گئی
اُس کے نرم ہاتھوں میں
کوئی پتی مسلی گئی
بیچ گُلشن کے کوئی کانٹا اگر اُسے چُھبا ہوتا
تو آج اتنا تو پھر پتہ ہوتا
درد کیا ہوتا ہے چُھبن کیا ہوتی ہے
کوئی جب دل جلائے تو جلن کیا ہوتی ہے
کیوں تاروں بھری حسیں رات بُری لگتی ہے
اب تو اُسے میری ہر بات بُری لگتی ہے
کسی کو تنہا چھوڑ دینے سے
کوئی معصوم سا دل توڑ دینے سے
کبھی راحت نہیں ملتی
کہیں چاہت نہیں ملتی
گر داو پہ زندگی ٹھہرے
تو پھر مات بُری لگتی ہے
اب تو اُسے میری ہر بات بُری لگتی ہے