اب تو تارے بھی ترے رخ پہ سفر کر تے ہیں
اپنی راتیں ترے کوچے میں بسر کرتے ہیں
مجھ پہ کچھ ایسی ترے عشق میں گزری کہ یہ لوگ
مجھ کو پاگل نہیں کہتے ہیں مگر ڈرتے ہیں
دوستی شمع سے مہنگی ہی پڑی ہے ہر بار
جانتے ہیں سبھی پروانے مگر مرتے ہیں
چاندنی رات ہے،تنہائی ہے،کچھ ہجر بھی ہے
شہر سے اٹھ کے کہیں دشت میں گھر کرتے ہیں
ہمارے اپنے قرینے ہیں کچھ محبت کے
کہ جس کو مار کے رکھا ہے اسُ پہ مرتے ہیں
ٹمٹماتے ہوئے تاروں سے کوئی پو چھے ذرا
ہجر کی شبَ کو یہ کس طور سحر کرتے ہیں
با وفا میں رہوں گا ہی مگر وہ احمر
زندگی اپنی جفاوں کی نذر کر تے ہیں