دل گرفتہ رہا ذہن اُ لجھتا رہا تیری یادوں سے،
میں چبھتا رہا ڈستا رہا سلگتا رہا تیری یادوں سے
تو آتا رہا دل باغیچہ میں ناموس بلبل کی طرح
خود کو الگ کیا تھا تیرے یادوں کی شاخوں سے
اور کیا دوں تجھ کو میں محبت کی ثبوت جوہر ٓ
لکھی ڈالی جو غزل تجھ پر وابستہ یادوں سے
اور نہ رُلا آکے اب مان بھی جاؤ
تو بھی تو کرتا ہے محبت میری باتوں سے